واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت شاہ  سکندر کیتھلی

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ولادت باسعادت ۲۹ رمضان ۹۶۲ہجری میں ہوئی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی والدہ جو حافظ قرآن اور عالمہ تھیں انہوں نےآپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ولادت سے قبل آدھی رات کو دیکھا کہ زمین سے آسمان تک روشنی پھیل گئی ہے۔ وہ گھبراگئیں اور بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوگئیں کہ یااللہ یہ کیا معاملہ ہے۔ غیب سے آواز آئی یہ تیرے بیٹے کی پیدائش کا وقت ہے اور یہ روشنی اس کے دل کا نور ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    حضرت شاہ کمال کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    کے پوتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ایک دن حضرت شاہ کمال کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    حوض کے کنارے وضو فرمارہے تھے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے دائیں طرف آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا عصا اور عمامہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت شاہ سکندر کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    کھیلتے ہوئے آئے اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا عمامہ اپنے سر پر رکھا اور عصا ہاتھ میں لے کر نہایت متانت اور سنجیدگی سے چند قدم چلے پھر پلٹ کر اپنے جدامجد سے پوچھا بتائیے بابا میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ    جیسا لگ رہا ہوں۔ حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور فرمایا کہ کم سن ہونے کے باوجود تم میرے جیسے لگ رہے ہو۔ اب یہ عمامہ اور عصا بھی تمہارا یہ خلافت بھی تمہاری اور تم ہی میرے جانشین ہوگے۔ یہ کہہ کر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے حضرت شاہ سکندر کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    کو سینے سے لگالیا۔

سلسلہ عالیہ قادریہ کے شیخ الآفاق حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد روس الاولیاء حضرت شاہ سکندر رحمتہ اللہ علیہ ۱۰۲۳ ہجری میں سجادہ نشین ہوۓ اور اپنے جد محترم کی طرح روحانیت و طریقت کے میدان میں طالبان حق کی رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ سے فیض پانے والے حضرات کی تعدد بہت زیادہ ہے ۔ مگر شیخ سر ہند حصرت مجدد الف ثانی اور حضرت شیخ طاہر بندگی لاہوری رحمہم اللہ تعالی دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے حضرت شاہ سکندر رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے اپنے آپ کو وابستہ کیا ۔ ان دونوں حضرات کے روحانی او رعمرانی کارنامے اب تاریخ کا حصہ بن جکے ہیں۔

 حضرت شاہ سکندر رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے اولاد و احفاد میں روحانیت کے علمبردار علماء فضلا، شعراء و ادبا اور خلق خدا کے رہنما ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اقلیم شعر میں حضرت سید علی سید اور روحانی و سیاسی زندگی میں آفتاب ولایت حضرت سید علی احمد گیلانی رحمہم اللہ تعالی کے اسماۓ گرامی نمایاں ہیں۔ موخر الذکر ماضی قریب کے بلند پایہ روحانی بزرگ تھے جن کی روحانی رہنمائی میں ایک زمانے نے راہ حق پر چل کر اپنی عاقبت سنواری ۔ تحریک پاکستان کے دوران موصوف نے اپنے آخباری بیان کے ذریعے مسلمانان برصغیر کو بالعموم اور اپنے متبعین محلصین اور مریدین کو بالخصوص قیام پاکستان کے لیے ووٹ دینے کی ہدایت کی۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    ساری ساری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی نظر میں ایسی تاثیر تھی کہ جس کی طرف آپ  رحمتہ اللہ علیہ    دیکھتے وہ بےخود ہوکر رہ جاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    جنگل میں آدھی رات کو مصروف عبادت تھے کہ چار راہزن اس طرف آنکلے اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ    سے شہر کی بابت پوچھا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے ان کی طرف ایسی پرتاثیر نگاہ سے دیکھا کہ وہ راہزنی چھوڑ کر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے حلقہ ادارت میں شامل ہوگئے۔

حضرت مجددالف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    جو کہ سلسلہ قادریہ میں آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے خلیفہ تھے فرماتے ہیں کہ میں موسم گرما میں جب سورج نصف النہار پر ہو تو میں کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ سکتا ہوں لیکن حضرت شاہ سکندر کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    جو روس الاولیا ہیں ان کی قلب مبارک کی طرف دیکھنا چاہا تو نگاہیں خیرہ ہوگئیں اور تاب جمال نہ لا سکیں۔

ایک دفعہ حضرت مجددالف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    اپنی شادی کے بعد سخت بیمار ہوگئے۔ حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    کے اہل خانہ حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    کی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے والد نے ایک قاصد کے ذریعے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    سے دعا کی درخواست کی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے دوگانہ ادا کرنے کے بعد فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    جلد صحت یاب ہوجائیں گے اور ان کے وجود سے دین مبین کو فروغ حاصل ہوگا۔ حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    کی حضرت شاہ سکندر  رحمتہ اللہ علیہ    سے محبت اور عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے یحیی کوکبھی اس کا نام لے کر نا پکارا کیونکہ وہ حضرت شاہ سکندر  رحمتہ اللہ علیہ    کی گود میں بیٹھا کرتاتھا۔ اس لئے ساری عمر اپنے بیٹے کو شاہ جیو کہہ کر پکارتے رہتے تھے۔ شاہ جیو ہمیشہ اس با ت پر فخر کیا کرتے تھے کہ حضرت شاہ سکندر  رحمتہ اللہ علیہ    نے بچپن میں ہی مجھے سلوک قادریہ میں مشرف فرمالیا تھا۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء سے منقول ہے کہ حضرت محمدﷺ شب معراج میں ایک خرقہ بہشت سے لائے تھے۔  حضرت محمدﷺ نے یہ خرقہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دے دیا۔ پھر یہ خرقہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور دیگر امامین سے ہوتا ہوا حضرت سید عبدالقادر جہلانی  رحمتہ اللہ علیہ    تک پہنچا۔ پھر یہ خرقہ حضرت عبدالرزاق گیلانی  رحمتہ اللہ علیہ    سے ہوتا ہوا حضرت شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ    کے پاس پہنچا اور پھر حضرت شاہ سکندر کیتھلی  رحمتہ اللہ علیہ    کے پاس پہنچا۔ آپ نے یہ خرقہ حضرت مجدد الف ثانی  رحمتہ اللہ علیہ    کو عطا فرمایا۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ  کو   اپنے  وصال کے متعلق پہلے ہی الہام ہوچکا تھا۔ ۹جمادی الاول۱۰۲۳ہجری کو آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے تازہ غسل فرمایا، نماز پڑھی اور اس کے بعد دیر تک سجدے میں رہے۔ اس کے بعد جو تبرکات سلسلہ بہ سلسلہ چلے آرہے تھے اپنے دونوں صاحبزادوں کو عنایت فرمائے اور انہیں ضروری نصیحتوں کے بعد اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا مزار شریف کیتھل انڈیا میں ہے۔